ترے ماحول کی صہبا بھی کتنی خام ہے ساقی

غزل| منظور حسین شورؔ انتخاب| بزم سخن

ترے ماحول کی صہبا بھی کتنی خام ہے ساقی
کہ ہم پر مستیوں کا بے سبب الزام ہے ساقی
مسلم احترامِ حافظؔ و خیامؔ ہے ساقی
مگر یاں تو فریبِ جام و مینا عام ہے ساقی
یہ رت یہ سبزہ و گل یہ ہوا یہ ابر یہ سایہ
یہاں تو ہر قدم پر دام زیرِ دام ہے ساقی
اٹھا دوں گر حجابِ جام و مینا تیری نظروں سے
تو آہنگِ مے و مینا بھی ایک کہرام ہے ساقی
تری چشمِ کرم اس بزم میں رسوا نہ ہو جائے
خراشِ دل چھپا کر مسکرانا عام ہے ساقی
کسی کا قلب ٹوٹے خون اپنی آنکھ سے ٹپکے
شعورِ آدمیت کا یہی انجام ہے ساقی
سوادِ دیر و کعبہ میں بھی مشکل ہی سے ملتی ہے
وہ اک جنسِ گراں انسان جس کا نام ہے ساقی
بظرفِ بے خودی نظروں کو دے تکلیفِ آزادی
حرم سے بت کدے تک لغزشِ یک گام ہے ساقی
تری محفل میں اپنے ہونٹ سی کر ہم تو بیٹھے ہیں
مگر پھر بھی ہماری خاموشی بدنام ہے ساقی
وطن سے دور غربت میں یہ اکثر میں نے سوچا ہے
یہ سورج کی کرن ہے یا سوادِ شام ہے ساقی

بہ جبرِ مصلحت چپ ہوں مگر چپ سے بھی کیا ہوگا
سوادِ شب سے کرنوں تک مرا پیغام ہے ساقی


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام