آنکھ نم ہو تو کس بہانے سے

غزل| منظور حسین شورؔ انتخاب| بزم سخن

آنکھ نم ہو تو کس بہانے سے
بات بنتی نہیں بنانے سے
کتنی نظریں ہوئی خراب نہ پوچھ
ایک تیرے نظر جھکانے سے
بجھ گیا ہر چراغِ دیر و حرم
عشق کا اک دیا جلانے سے
وہ حرم میں بھی سرنگوں نہ ہوا
جو اٹھا تیرے آستانے سے
ذرّہ ذرّہ ہے آفتاب بدوش
تیرے رخ سے نقاب اٹھانے سے
باتوں باتوں میں روٹھنا اس کا
اِس بہانے سے اُس بہانے سے
کوئی اپنا نظر نہیں آتا
کیا وفا اٹھ گئی زمانے سے
ہر حقیقت کی ہم نے رکھ لی لاج
اک فریبِ مجاز کھانے سے
جو گزرتی ہے وہ گزرتی ہے
کون شکوہ کرے زمانے سے
جو ٹپک جائے انکھ سے اے شورؔ
وہ چھپے راز کیا چھپانے سے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام