مآلِ شب بعنوانِ سحر کہنا ہی پڑتا ہے

غزل| منظور حسین شورؔ انتخاب| بزم سخن

مآلِ شب بعنوانِ سحر کہنا ہی پڑتا ہے
کوئی رستہ ہو اس کی رہ گزر کہنا ہی پڑتا ہے
وہ سناٹا خرد کہتی ہے جس کو گھر کی ویرانی
اسے بھی رونقِ دیوار و در کہنا ہی پڑتا ہے
سلگ جاتا ہے سینہ جس کی ٹھنڈی سرسراہٹ سے
اس آتش کو بھی یاں بادِ سحر کہنا ہی پڑتا ہے
شریکِ رہ گزر کوئی نہیں ہوتا مگر پھر بھی
یہاں ہر راہرو کو ہم سفر کہنا ہی پڑتا ہے
مسلم گل کدوں کی لالہ سامانی مگر ہمدم
شرار و برق کو بھی معتبر کہنا ہی پڑتا ہے
بہ ہر صورت گزر جاتی ہے جو دل پر گزرتی ہے
مگر پھر اپنے گھر کو اپنا گھر کہنا ہی پڑتا ہے
کچھ ایسے بھی فسانے محفلوں میں چھیڑے جاتے ہیں
کہ جن کو احتیاطاً مختصر کہنا ہی پڑتا ہے
خموشی ایک مجبوری تکلم ایک محرومی
کسی سے کہہ نہیں سکتے مگر کہنا ہی پڑتا ہے



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام