جس دل میں خدا کا خوف رہے باطل سے ہراساں کیا ہوگا

غزل| ماہرؔ القادری انتخاب| بزم سخن

جس دل میں خدا کا خوف رہے باطل سے ہراساں کیا ہوگا
جو موت کو خود لبیک کہے وہ حق سے گریزاں کیا ہوگا
آئینِ چمن بندی بھی نہیں ، دستورِ نوا سنجی بھی نہیں
اب اس سے زیادہ گلشن کا شیرازہ پریشاں کیا ہوگا
اربابِ محبت سے یہ کہو شکوے نہ کریں کچھ کام کریں
جو ظلم و ستم پر اِترائے شکووں سے پشیماں کیا ہوگا
جو لوگ ہوا کے ساتھی ہیں وہ اپنے خدا کے باغی ہیں
اس جرمِ بغاوت سے بڑھ کر ایمان کا نقصاں کیا ہوگا
جس کشتی کی پتواروں کو ملاحوں نے توڑا ہو
اُس کشتی کے ہمدردوں کو پھر شکوۂ طوفاں کیا ہوگا
مدت سے کشاکش جاری ہے صیاد میں اور گلچینوں میں
تنظیمِ گلستاں ہونے تک انجامِ گلستاں کیا ہوگا
جس چوٹ سے دل میں ہلچل ہے آہوں میں وہ ظاہر کیا ہوگی
سینہ میں جو محشر برپا ہے اشکوں سے نمایاں کیا ہوگا
اس شامِ خزاں نے اب تک تو ہر طرح سے پردہ داری کی
جب صبحِ بہار آ جائے گی ائے تنگیٔ داماں کیا ہوگا

خلوت ہو کہ جلوت ہو ماہرؔ دل کھویا کھویا رہتا ہے
اس غم کی تلافی کب ہوگی اس درد کا درماں کیا ہوگا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام