تقدیر کا شکوہ بے معنی جینا ہی تجھے منظور نہیں

غزل| مجروحؔ سلطان پوری انتخاب| بزم سخن

تقدیر کا شکوہ بے معنی جینا ہی تجھے منظور نہیں
آپ اپنا مقدر بن نہ سکے اتنا تو کوئی مجبور نہیں
یہ محفلِ اہلِ دل ہے یہاں ہم سب میکش ہم سب ساقی
تفریق کریں انسانوں میں اِس بزم کا یہ دستور نہیں
جنت بہ نگہ تسنیم بہ لب انداز اس کے اے شیخ نہ پوچھ
میں جس سے محبت کرتا ہوں انساں ہے خیالی حور نہیں
وہ کون سی صبحیں ہیں جن میں بیدار نہیں افسوں تیرا
وہ کون سی کالی راتیں ہیں جو میرے نشے میں چور نہیں
سنتے ہیں کہ کانٹے سے گل تک ہیں راہ میں لاکھوں ویرانے
کہتا ہے مگر یہ عزم جنوں صحرا سے گلستاں دور نہیں
مجروحؔ اٹھی ہے موج صبا آثار لیے طوفانوں کے
ہر قطرۂ شبنم بن جائے اک جوئے رواں کچھ دور نہیں



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام