اہلِ وفا و اہلِ محبت کدھر گئے

غزل| عاجزؔ مالیرکوٹلوی انتخاب| بزم سخن

اہلِ وفا و اہلِ محبت کدھر گئے
بے لوث الفتوں کے زمانے گزر گئے
اُس راہ پر ہے منزلِ مقصود کا نشاں
جس راہ سے ہمارے سبھی راہبر گئے
غم تھا نہ کوئی فکر تھا تیری حضور میں
مدت گزر گئی ہے وہ شام و سحر گئے
ٹھہرے نہ تھے کہیں جو تعیش کی راہ میں
دو گام راہ حق میں چلے تھے ٹہر گئے
پیدا جو ہوگیا ہے مرے گا بھی وہ ضرور
وہ خوش نصیب ہیں رہ حق میں جو مر گئے
روشن ہے نام انہی کا گلستانِ دہر میں
جو گلستانِ دہر میں کچھ کام کر گئے
محفوظ ہو گئے وہ ہمیشہ کے واسطے
جو بول آپ کے میرے دل میں اتر گئے
تاریکیٔ لحد کا اڑاتے تھے جو مذاق
خالی مکاں میں ظلمتِ شب سے وہ ڈر گئے
قربت سےجن کی قلب و نظر میں تھی روشنی
دنیا سے اب وہ صاحبِ قلب و نظر گئے
جن کی نشاط و عیش میں عمریں گزر گئیں
دنیا سے جب گئے تو وہ با چشمِ تر گئے

عاجزؔ ہوئی ہے فکرِ اجل جب سے جاں گزیں
بگڑے ہوئے جو کام تھے سارے سنور گئے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام