جب غم کی لطافت بڑھتی ہے جب درد گوارا ہوتا ہے

غزل| ماہرؔ القادری انتخاب| بزم سخن

جب غم کی لطافت بڑھتی ہے جب درد گوارا ہوتا ہے
اشکوں میں تبسم ڈھلتا ہے فریاد میں نغمہ ہوتا ہے
جب نام تمہارا آتا ہے جب ذکر تمہارا ہوتا ہے
آنکھوں میں چمک آ جاتی ہے دل ہے کہ دھڑکتا ہوتا ہے
فرقت کی بھیانک راتوں میں کیا طرفہ تماشا ہوتا ہے
شمعیں بھی فروزاں رہتی ہیں اور گھر میں اندھیرا ہوتا ہے
بیمار کی حالت کیا کہیئے درد آخری حد میں آ پہنچا
پرسش کا زمانہ بیت گیا تسکین سے اب کیا ہوتا ہے
سورج کی شعاعیں افسردہ آنکھیں پرنم دل پژمردہ
اک جب بھی سویرا ہوتا تھا اک اب بھی سویرا ہوتا ہے
وہ یاد سلامت ہے جب تک دنیا کے غموں کی کیا پروا
کانٹوں میں بھی رہ کر ائے ہمدم پھولوں میں بسیرا ہوتا ہے
یہ واعظ و صوفی کی باتیں ہر بات کی سو سو تاویلیں
معنی کی خبر دونوں کو نہیں الفاظ پہ جھگڑا ہوتا ہے
سمجھو تو خموشی سب کچھ ہے دیکھو تو خموشی کچھ بھی نہیں
آواز بھی ہے الفاظ بھی ہیں مفہوم بھی پیدا ہوتا ہے

ماہرؔ مرے شعروں کے خاکے اس طرح مرتب ہوتے ہیں
کچھ دل بھی تقاضا کرتا ہے کچھ اُن کا اشارہ ہوتا ہے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام