جلوے تمام صرفِ نظر ہو کے رہ گئے

غزل| ماہرؔ القادری انتخاب| بزم سخن

جلوے تمام صرفِ نظر ہو کے رہ گئے
جو گل نہ بن سکے وہ شرر ہو کے رہ گئے
کس جوش سے چلے تھے مسافر مگر یہ کیا
آسودۂ نشاطِ سفر ہو کے رہ گئے
راہِ وفا نہ ختم ہوئی ہے نہ ہو سکے
اچھے رہے جو خاک بسر ہو کے رہ گئے
ذرّے ہوئے بلند ہوا اُن کو لے اڑی
قطرے ہوئے جو پست گہر ہو کے رہ گئے
جوشِ نیاز و ناز نہ طوفانِ سوز و ساز
کیا حسن و عشق شیر و شکر ہو کے رہ گئے
ماہرؔ یہ جدّتیں یہ ترقی پسندیاں
جتنے بھی عیب تھے وہ ہنر ہو کے رہ گئے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام