بس یہی تعارف ہے سن لو مختصر میرا

غزل| اقبالؔ سعیدی انتخاب| بزم سخن

بس یہی تعارف ہے سن لو مختصر میرا
میں سپوت آدم کا نام ہے بشر میرا
بات پرکشش تھی یا کچھ خلوص تھا پنہاں
دشمنوں کے دل پر بھی ہو گیا اثر میرا
سازشیں بھیانک تھیں شہر کے رقیبوں کی
کر گیا مگر مجھ کو دوست باخبر میرا
اُٹھ گئے کئی پردے راز کھل گئے کتنے
دل کے ہر دریچے سے جب ہوا گزر میرا
دیکھتا ہوں کلیوں کو جب بھی اس گلستاں میں
مجھ کو خوں رلاتا ہے یاد آ کے گھر میرا
جب نقوش منزل کے دور سے نظر آئے
کر دیا تمنا نے تیز تر سفر میرا
ہر کسی کے چہرے پر یاس ہے اداسی ہے
رنجشوں میں بھی چہرہ شاد ہے مگر میرا
میں جو شعر کہتا ہوں خوں جلا کے رگ رگ کا
اس میں ہے تڑپ دل کی ہے یہی ہنر میرا
میری خامہ فرسائی آپ کو پسند آئی
آپ نے نہیں پوچھا حالِ دل مگر میرا
میں وہی سعیدیؔ ہوں کیوں نہیں شناسائی
بھول ہی گیا شاید مجھ کو ہم سفر میرا



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام