جب نمایاں ہر طرف سے ان کے جوہر ہوگئے

غزل| اقبالؔ سعیدی انتخاب| بزم سخن

جب نمایاں ہر طرف سے اُن کے جوہر ہوگئے
اُن کے چرچے ہر کس ونا کس کے لب پر ہوگئے
پیار و الفت کے ترانے جن کو ازبر ہوگئے
ان کی یادوں کے فسانے نقش دل پر ہوگئے
دے رہے تھے لوگ کل تک جن کو تنکوں کی مثال
دیکھتے ہی دیکھتے وہ ماہ و اختر ہوگئے
راستے سے ہٹ گئے سب ہار اپنی مان کر
کامراں ہم آزمائش سے گزر کر ہوگئے
ہم بھی کانٹوں کی طرح چبھنے لگے ہر موڑ پر
جب ہمارے واسطے وہ تیر و نشتر ہوگئے
اک مری قسمت کا تارا ہے جو محور پر نہیں
جب کہ باہم سب ستارے سوئے محور ہوگئے
جانفشانی کا صلہ ہے یا دعاوؤں کا اثر
الغرض حالات اب پہلے سے بہتر ہوگئے
رخ بدل دیتے تھے کل تک دور سے جو دیکھ کر
آج وہ اتنے قریب آئے کہ دلبر ہوگئے
وقت کی یہ مصلحت ہے یا کہ وحدت کی دلیل
بت شکن بیٹے ہوئے اور باپ بت گر ہوگئے
رنگ لا کر ہی رہا آخر جوانوں کا لہو
قطرے قطرے سے عیاں جب ان کے جوہر ہوگئے
لوگ دہراتے ہیں اب بھی تلخی حالات کیوں
جن کی یادوں سے ہی گہرے داغ دل پر ہوگئے
آج بھی ارض وطن سرسبز ہے شاداب ہے
کون کہتا ہے علاقے اس کے بنجر ہوگئے
آپ سے کی ابتدا پھر تم ہوا پھر تو ہوا
رفتہ رفتہ ان کے نخرے حد سے بڑھ کر ہوگئے
فن کی ہے بالیدگی یا عمدگی افکار کی
الغرض چرچے ہمارے فن کے گھر گھر ہوگئے

زندگی بھر ساتھ دینے کا کیا وعدہ مگر
آج اے اقبالؔ ہم سے دور کیوں کر ہوگئے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام