تھی جو تصویرِ محبت وہ بھی عریاں ہوگئی

غزل| اقبالؔ سعیدی انتخاب| بزم سخن

تھی جو تصویرِ محبت وہ بھی عریاں ہوگئی
ساتھ یوسف کے زلیخا چاک داماں ہوگئی
ان سے تھا عشقِ حقیقی یا محض دیوانہ پن
الغرض یہ زندگانی ان پہ قرباں ہوگئی
معجزہ یہ حسن کا ہے یا محبت کا اثر
جو نظر تھی دشمنِ جاں جانِ جاناں ہوگئی
شرپسندی رہ زنی عریانیت بے رہ روی
نوجوانو! کیا یہی تہذیبِ دوراں ہوگئی
آ گئے شاہِ رسالت شامِ ظلمت ڈھل گئی
شمعِ حق پھر سے زمانے میں فروزاں ہوگئی
گونج اٹھی ہر طرف اللہ اکبر کی صدا
چار سو نکہت فشاں توحیدِ یزداں ہوگئی
کیسے منکر ہو کوئی یا رب تیری تخلیق کا
کن فکاں جو کہہ دیا تعمیرِ انساں ہوگئی
ہے فقط ذوقِ تلاوت ذوقِ طاعت ہی نہیں
شیخ صاحب کیا یہی تفہیمِ قرآں ہوگئی
پھر ستم ٹوٹا کہیں تعمیرِ نو کے نام پر
پھر کوئی آباد بستی آج ویراں ہوگئی
بس گئی ہے دل میں میرے اس طرح صورت تری
جس طرح تصویر آئینے پہ چسپاں ہوگئی

شعر گوئی میں مجھے اقبالؔ ملتا ہے سکوں
شاعری جیسے کتابِ دل کا عنواں ہوگئی


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام