نفسی نفسی کا ہے عالم کیا اپنے حالات کہیں

غزل| کوثرؔ جعفری انتخاب| بزم سخن

نفسی نفسی کا ہے عالم کیا اپنے حالات کہیں
کس کو سنائیں اپنا دھکڑا کس سے اپنی بات کہیں
ان کے عطا کردہ زخموں کو بیش بہا سوغات کہیں
داغِ جگر کو لالۂ رنگی اشکوں کو برسات کہیں
ہم نہ کریں گے الٹی سیدھی منھ دیکھے کی جھوٹ غلط
ہم تو دن کو دن ہی کہیں گے وہ چاہیں تو رات کہیں
بلبل کے پھنس جانے کی تو بات سمجھ میں اتی ہے
جال میں خود صیاد پھنسے تو اس کو کیسی گھات کہیں

چاند سا مکھڑا پھول سےعارض جھیل سے آنکھیں ہونٹ کنول
کوثرؔ اس دلکش منظرکو جلوؤں کی بارات کہیں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام