آدمی کی آدمیت ڈھونڈئیے کردار میں

غزل| اقبالؔ سعیدی انتخاب| بزم سخن

آدمی کی آدمیت ڈھونڈئیے کردار میں
طور میں گفتار میں اقرار میں اظہار میں
راز تسلیم و رضا کا ہے نہاں انکار میں
کوئی کیا سمجھے چھپا کیا ہے دلِ دلدار میں
آپ کا یوں مسکرانا دیکھ کر ایسا لگا
کھل رہا ہے جیسے کوئی گل کسی گلزار میں
آہ یہ تنہائیاں ، یہ تلخیاں ، تاریکیاں
کیوں نہیں کوئی ہمارا اس بھرے سنسار میں
جذبۂ مہر و وفا ، اخلاص و خلق و آگہی
گھل گئے ہیں سب عناصر ذہن میں افکار میں
زندگی ہے امتحان اس کا نتیجہ موت ہے
موجزن یہ فلسفہ ہے ہر دلِ بیدار میں
یہ سیاست ، یہ حکومت ، یہ نظامِ مملکت
ناچنے والے بھی شامل ہو گئے سرکار میں
جانے وہ کب آئیں گے وعدہ نبھانے کے لئے
عمر کٹتی جا رہی ہے حسرتِ دیدار میں
صاحبِ کردار یوں تو لگ رہا ہے ہر کوئی
کیا خبر کچھ اور بھی ہو پردۂ اسرار میں
آہ یہ غیرت فروشی ، آہ سودائے ضمیر
بِک رہا ہے آدمی بھی آج کل بازار میں
غور کر اقبالؔ تیری بھی سمجھ میں آئے گا
زندگی ہی نغمہ زن ہے ہر نفس کے تار میں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام