ہزار پھول لیے موسمِ بہار آئے

غزل| ثاقبؔ لکھنوی انتخاب| بزم سخن

ہزار پھول لیے موسمِ بہار آئے
جو دل ہو سوکھ کے کانٹا تو کیا قرار آئے
جواب لے کے پھری شکر نزع کی ہچکی
وہ اب پکارتے ہیں ہم جنہیں پکار آئے
سلجھ سکیں نہ مری مشکلیں مگر دیکھا
الجھ گئے تھے جو گیسو انہیں سنوار آئے
فلک کو دیکھ کے ہنستے یہ گل تو اچھا تھا
جو ابر آئے وہ گلشن پہ اشک بار آئے
بہت سے یاد ہیں محفل میں بیٹھنے والے
کبھی تو بھول کے کوئی سرِ مزار آئے
ابھی ہے غنچۂ دل کی شگفتگی ممکن
ہزار بار اگر موسمِ بہار آئے
یہ بے مروتیاں دیکھئے کہ لب نہ ہلے
جو پاس تھے ہم انہیں دور تک پکار آئے
جواب مل تو گیا گو وہ دل شکن ہی سہی
یہی صدا مرے مالک پھر ایک بار آئے

اندھیری رات تھی اچھا کیا جو اے ثاقبؔ
چراغ لے کے سوئے ظلمتِ مزار آئے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام