کہاں تک جفا حسن والوں کی سہتے

غزل| ثاقبؔ لکھنوی انتخاب| بزم سخن

کہاں تک جفا حسن والوں کی سہتے
جوانی جو رہتی تو پھر ہم نہ رہتے
ہجومِ تمنا سے گھٹتے تھے دل میں
جو میں روکتا بھی تو نالے نہ رہتے
نشیمن نہ جلتا نشانی تو رہتی
ہمارا کیا تھا ٹھیک رہتے نہ رہتے
بتاتے ہیں آ نسو کہ اب دل نہیں ہے
جو پانی نہ ہوتا تو دریا نہ بہتے
زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا
ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے
کوئی نقش اور کوئی دیوار سمجھا
زمانہ ہوا مجھ کو چپ رہتے رہتے
مری ناؤ اس غم کے دریا میں ثاقبؔ
کنارے پہ آ ہی لگی بہتے بہتے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام