وہی ذاتِ باری کو پہچانتا ہے

غزل| ثاقبؔ لکھنوی انتخاب| بزم سخن

وہی ذاتِ باری کو پہچانتا ہے
جو اپنی حقیقت کو خود جانتا ہے
اٹھاتا ہے دل ذلتیں ذلتوں پر
مگر میرا کہنا نہیں مانتا ہے
طریقِ نیاز اور طرزِ تغافل
یہ میں جانتا ہوں وہ تو جانتا ہے
مشیت وہاں ہے بعنوانِ دیگر
یہاں اور کچھ دل میں تو ٹھانتا ہے
ستمگر مری چپ سے راضی ہے ورنہ
گلہ کیجیے تو برا مانتا ہے
بری ہوں میں لوثِ گنہ سے مگر دل
مجھے آپ کردار میں سانتا ہے
اِدھر سر نِگوں میں اُدھر میرا قاتل
پئے قتل دامن کو گردانتا ہے
صفائی کہاں خاک دانِ جہاں میں
وہ سب کرکرا ہے جو تو چھانتا ہے
غنیمت ہے ثاقبؔ کا دم لکھنؤ میں
وہ جو کچھ برا یا بھلا جانتا ہے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام