نظر نظر سے ملائی کیوں تھی نفس نفس میں سمائے کیوں تھے

غزل| کیفؔ مراد آبادی انتخاب| ابو الحسن علی

نظر نظر سے ملائی کیوں تھی نفس نفس میں سمائے کیوں تھے
انہیں تھا منظور مجھ سے پردہ تو سامنے میرے آئے کیوں تھے
دیارِ حسنِ وفا طلب کی طرف قدم ہی اٹھائے کیوں تھے
جنوں کو الزام دینے والے جنوں کی باتوں میں آئے کیوں تھے
اسی خطا کی سزا میں اب تک نشانِ منزل نہیں ملا ہے
رہِ محبت میں اول اول مرے قدم ڈگمگائے کیوں تھے
وہ آفتابِ جمال شاید یہیں کہیں سے گزر رہا ہے
جہانِ دل کے تمام ذرے ابھی ابھی جگمگائے کیوں تھے
نفس نفس صد خلش بداماں قدم قدم پر ہزار طوفاں
میں اب یہ سمجھا کہ روزِ اول وہ دیکھ کر مسکرائے کیوں تھے

انہیں جو اب کیفؔ سے ہے شکوہ کہ نظمِ عالم بگاڑ ڈالا
وہ ایسے دیوانے کو بھلا اس خرد کی دنیا میں لائے کیوں تھے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام