ہجر کی شب یوں مرے نالے صدا دینے لگے

غزل| ثاقبؔ لکھنوی انتخاب| بزم سخن

ہجر کی شب یوں مرے نالے صدا دینے لگے
سننے والے رات کٹنے کی دعا دینے لگے
آئیے حالِ دلِ بیمار سنیئے دیکھیئے
کیا کہا زخموں نے کیوں ٹانکے صدا دینے لگے
کس نظر سے آپ نے دیکھا دلِ مجروح کو
زخم جو کچھ بھر چلے تھے پھر ہوا دینے لگے
سننے والے رو دیئے سن کر مریضِ غم کا حال
دیکھنے والے ترس کھا کر دعا دینے لگے
باغباں نے آگ دی جب آشیانے کو مرے
جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے
مٹھیوں میں خاک لے کر دوست آئے وقتِ دفن
زندگی بھر کی محبت کا صلہ دینے لگے

سینۂ سوزاں میں ثاقؔب گھٹ رہا ہے وہ دھواں
اُف کروں تو آگ دنیا کی ہوا دینے لگے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام