میں شہرِ لفظ میں جو با کمال ہو جاؤں

غزل| اظہرؔعنایتی انتخاب| بزم سخن

میں شہرِ لفظ میں جو با کمال ہو جاؤں
نئے سخن کے لئے اک مثال ہو جاؤں
اب اس قدر بھی مرے یار مجھ کو ساتھ نہ رکھ
کہ تیرا جیسا ہی نازک خیال ہو جاؤں
مجھے تھا ہجر کی رت کا بھی تجربہ کرنا
وہ چاہتا تھا ہلاکِ وصال ہو جاؤں
امیرِ شہر نہیں میں کہ چھوٹی باتوں پر
کسی کے واسطے وجہِ زوال ہو جاؤں
اگر سپرد وہ کر دے خلوص سے خود کو
ہر اک محاذ پہ میں اس کی ڈھال ہو جاؤں
گھنے درخت کو روندا بھی جا نہیں سکتا
اگر ہو سبزہ تو میں پائمال ہو جاؤں

جو تو بڑا کوئی درویش ہے تو پھر اظہرؔ
نظر وہ ڈال کہ میں با کمال ہو جاؤں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام