قلم پر قرض ہے جاں کا ادا تو ہو رہا ہو گا

غزل| شاہدؔہ حسن انتخاب| بزم سخن

قلم پر قرض ہے جاں کا ادا تو ہو رہا ہو گا
مگر گمنام گوشے میں کوئی دل رو رہا ہو گا
کوئی ہو گا کسی سچّی اذیّت کے نشے میں گم
کوئی جھوٹی خوشی کو بے اِرادہ ڈھو رہا ہو گا
کسی کو یاد آئے جا رہی ہو گی گئی پت جھڑ
کوئی تازہ رتوں کے بیج دل میں بو رہا ہو گا
کوئی اکتا رہا ہو گا کسی پر شور محفل سے
کوئی جادو بھری تنہائیوں میں کھو رہا ہو گا
کہیں پردیس میں بے خواب آنکھیں جاگتی ہوں گی
کوئی اک یاد اوڑھے اپنے گھر میں سو رہا ہو گا
ہر اک پل کی خبر رکھنے کی ایسی کیا ضرورت ہے
بھری دنیا ہے اس میں کچھ نا کچھ تو ہو رہا ہو گا



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام