شوق کے دفتر دلوں میں رہ گئے

غزل| میکشؔ اکبر آبادی انتخاب| بزم سخن

شوق کے دفتر دلوں میں رہ گئے
گرچہ عاشق داستانیں کہہ گئے
دل میں خود ان کے بھی چبھ کر رہ گئے
وہ نظر کے تیر جو ہم سہہ گئے
مہربانی آپ کی یادش بخیر
وقت کی موجوں میں عالم بہہ گئے
تھا تری نظروں میں وہ جادو کہ ہم
جو نہ کہنا چاہتے تھے کہہ گئے
تھی جنوں آمیز اپنی گفتگو
بات مطلب کی بھی لیکن کہہ گئے
نزع تک دل اس کو دہرایا کیا
اک تبسم میں وہ کیا کچھ کہہ گئے
آج وہ محفل میں میکشؔ کی طرح
کچھ نہ بولے اور سب کچھ کہہ گئے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام