خود ہی میں ساقی تھا خود میکش تھا خود ہی جام تھا

غزل| میکشؔ اکبر آبادی انتخاب| بزم سخن

خود ہی میں ساقی تھا خود میکش تھا خود ہی جام تھا
ہائے وہ دن! جب مرے جلوے تھے تیرا بام تھا
میری کم ظرفی کہ تیرے سامنے رویا کیا
رنج میں بھی مسکرایا تو یہ تیرا کام تھا
دل کی بربادی میں کچھ لذت ہی تھی ورنہ مجھے
آپ سے کیا کام ہوتا آپ سے کیا کام تھا
تیری خاموشی نے خودداری سکھائی ہے مجھے
ورنہ دردِ عشق سر سے پاؤں تک پیغام تھا
آج وہ انداز بھی تیرا قیامت ہے مجھے
کل جو تھا دل کی مسرت روح کا آرام تھا
کس طرح اُس گھر کو خالی دیکھئے جس گھر میں کل
آپ تھے اور آپ کا میکشؔ تھا دورِ جام تھا



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام