دل وہ جس کے آئینے میں عکسِ آئندہ رہا

غزل| تسنیمؔ فاروقی لکھنوی انتخاب| بزم سخن

دل وہ جس کے آئینے میں عکسِ آئندہ رہا
تیرہ دامن منزلوں میں بھی درخشندہ رہا
آہِ آوارہ کی صورت روح‌ِ گل پیاسی رہی
پھول خوشبو بن کے شبنم کے لئے زندہ رہا
ہائے وہ اک مفلس و بے خانماں جو عمر بھر
سایۂ دیوار اہلِ زر کا باشندہ رہا
کون ہم سے چھین سکتا ہے محبت کا مزاج
پتھروں میں رہ کے بھی یہ نقش تابندہ رہا
زندگی سے یوں تو سمجھوتہ کیا سب نے مگر
جس نے جینے کی قسم کھائی وہی زندہ رہا
کائناتِ نور و ظلمت ہے مرا اپنا وجود
روشنی میں بھی مرا سایہ نمائندہ رہا
جانے کیا کیا کہہ گیا اس سے مرا حسنِ سکوت
دیر تک وہ میرے چپ رہنے پہ شرمندہ رہا
حادثے تو اور بھی تسنیمؔ سے الجھے مگر
اک ترا غم تھا جو ہر عالم میں پائندہ رہا



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام