عکسِ زنجیر پہ مر مٹنے کے پہلو دوں گا

غزل| تسنیمؔ فاروقی لکھنوی انتخاب| بزم سخن

عکسِ زنجیر پہ مر مٹنے کے پہلو دوں گا
کچھ سزا تجھ کو بھی اے شاہدِ گیسو دوں گا
اپنے گھر سے تجھے جانے نہیں دوں گا خالی
مجھ کو ہیرے نہیں حاصل ہیں تو جگنو دوں گا
زندگی تجھ سے یہ سمجھوتہ کیا ہے میں نے
بیڑیاں تو مجھے دے میں تجھے گھنگھرو دوں گا
مجھ کو دنیا کی تجارت میں یہی ہاتھ آیا
میں نے آنسو ہی کمائے تجھے آنسو دوں گا
میں ہوں دریا مجھے خدمت میں لگے رہنا ہے
میں اگر سوکھ بھی جاؤں گا تو بالو دوں گا
میں تو اک پیڑ ہوں چندن کا مجھے جسم نہ جان
تو مجھے قتل بھی کر دے گا تو خوشبو دوں گا

پہلے کچھ بانٹ اصولوں کے بنا لو تسنیمؔ
جس میں کردار تلیں میں وہ ترازو دوں گا

نوٹ:- کہیں کہیں مطلع کا پہلا مصرع یوں بھی درج ہے { عکسِ زنجیر پہ جاں دینے کے پہلو دوں گا }


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام