گلابِ تازہ پہ جگنو دکھائی دیتے ہیں

غزل| تسنیمؔ فاروقی لکھنوی انتخاب| بزم سخن

گلابِ تازہ پہ جگنو دکھائی دیتے ہیں
غزل کے چہرے پہ آنسو دکھائی دیتے ہیں
یہ سرد رات یہ سانسوں کا نرم نرم دھواں
وہ بات کرنے میں خوشبو دکھائی دیتے ہیں
جنھیں کھلی ہوئی آنکھوں سے رہنما سمجھا
وہ بند آنکھوں سے ڈاکو دکھائی دیتے ہیں
تلاش کیجئے پانی ان ہی کی چھاؤں میں
جو ٹیلے دور سے بالو دکھائی دیتے ہیں
سیاہ پوش ہیں انصاف کی تجارت میں
عدالتوں میں ترازو دکھائی دیتے ہیں
شکن شکن ہوا تسنیمؔ جامۂ اصلی
کھنچے کھنچے وہی ابرو دکھائی دیتے ہیں



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام