ہم پر تمہاری چاہ کا الزام ہی تو ہے

غزل| فیض احمد فیضؔ انتخاب| بزم سخن

ہم پر تمہاری چاہ کا الزام ہی تو ہے
دشنام تو نہیں ہے یہ اکرام ہی تو ہے
کرتے ہیں جس پہ طعن کوئی جرم تو نہیں
شوقِ فضول و الفتِ ناکام ہی تو ہے
دل مدعی کے حرفِ ملامت سے شاد ہے
اے جانِ جاں یہ حرف ترا نام ہی تو ہے
دل نا امید تو نہیں ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے
دستِ فلک میں گردشِ تقدیر تو نہیں
دستِ فلک میں گردشِ ایام ہی تو ہے
آخر تو ایک روز کرے گی نظر وفا
وہ یارِ خوش خصال سرِ بام ہی تو ہے

بھیگی ہے رات فیضؔ غزل ابتدا کرو
وقتِ سرود درد کا ہنگام ہی تو ہے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام