ہو تو کمالِ ربطِ محبّت کسی کے ساتھ

غزل| شکیلؔ بدایونی انتخاب| بزم سخن

ہو تو کمالِ ربطِ محبّت کسی کے ساتھ
دل چیز کیا ہے جان بھی دے دوں خوشی کے ساتھ
ہمدردیاں ہیں عمر کو تنہا روی کے ساتھ
طے کر رہا ہوں راہِ وفا زندگی کے ساتھ
ہے ہر قدم پہ فتنہ در آغوشِ کائنات
ممکن نہیں گزر جو یہاں آشتی کے ساتھ
حاصل ہے اختیار جسے مرگ و زیست پر
جی چاہتا ہے عمر گزاروں اُسی کے ساتھ
وہ عشق کیا جو بن کے رہے غیر مستقل
وہ درد کیا جو ختم نہ ہو زندگی کے ساتھ
حاصل ہے اَوجِ سجدہ حریمِ جمال پر
فطرت میں کچھ غرور بھی ہے عاجزی کے ساتھ

دراصل آدمی نہ سمجھنا شکیلؔ اسے
جو آدمی وفا نہ کرے آدمی کے ساتھ


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام