ساری دنیا میں مرے جی کو لگا ایک ہی شخص

غزل| عباس تابشؔ انتخاب| بزم سخن

ساری دنیا میں مرے جی کو لگا ایک ہی شخص
ایک ہی شخص تھا ایسا بخدا ایک ہی شخص​
درجۂ کفر سہی مدحِ جمالِ جاناں
دل کی پوچھو تو خدا سے بھی بنا ایک ہی شخص​
ایسا لگتا ہے سبھی عشق کسی ایک سے تھے
ایسا لگتا ہے مجھے ملتا رہا ایک ہی شخص​
وہ جو میں اُس کی محبت بھی کسی اور سے کی
اُن دنوں شہر کا ہر شخص لگا ایک ہی شخص​
میں تو اے عشق تیری کوزہ گری جانتا ہوں
تو نے ہم دو کو ملایا تو بنا ایک ہی شخص​
مجھ سے ناراض نہ ہونا مرے اچھے لوگو!
کیا کروں میری محبت نے چنا ایک ہی شخص​
تو جو کہتا ہے ترے جیسے کئی اور بھی ہیں
تجھ کو دعویٰ ہے تو پھر خود سا دکھا ایک ہی شخص​
تو جسے چاہتا ہے میں بھی اُسے چاہتا ہوں
اچھا لگتا ہے مجھے تیرے سوا ایک ہی شخص​

دوست! سب سے کہاں کھنچتا ہے غزل کا چلہ
حجرۂ میرؔ میں ہوتا ہے سدا ایک ہی شخص


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام