نمایاں دونوں جانب شانِ فطرت ہوتی جاتی ہے

غزل| شکیلؔ بدایونی انتخاب| بزم سخن

نمایاں دونوں جانب شانِ فطرت ہوتی جاتی ہے
اُنہیں مجھ سے مجھے اُن سے محبت ہوتی جاتی ہے
مری شامِ الم صبحِ مسرت ہوتی جاتی ہے
کہ ہر لحظہ ترے ملنے کی صورت ہوتی جاتی ہے
نگاہیں مضطرب اترا ہوا چہرہ زباں ساکت
جو تھی اپنی وہی اب ان کی حالت ہوتی جاتی ہے
نہ کیوں ہوں اس ادا پر عشق کی خود داریاں صدقے
انہیں رودادِ غم سن سن کے حیرت ہوتی جاتی ہے
کہیں رازِ محبت آسماں پر بھی نہ کھل جائے
مجھے آہ و فغاں کرنے کی عادت ہوتی جاتی ہے
محبت ہی میں ملتے ہیں شکایت کے مزے پیہم
محبت جتنی بڑھتی ہے شکایت ہوتی جاتی ہے

شکیلؔ ان کی جدائی میں ہے لطفِ زندگی زائل
نظر بے کیف افسردہ طبیعت ہوتی جاتی ہے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام