راہِ وفا میں ہر سو کانٹے دھوپ زیادہ سائے کم

غزل| مولانا ذکی کیفیؔ انتخاب| بزم سخن

راہِ وفا میں ہر سو کانٹے دھوپ زیادہ سائے کم
لیکن اس پر چلنے والے خوش ہی رہے پچھتائے کم
عمر گلوں کی دو دن جس میں یہ بھی قیامت بیت گئی
دستِ ہوس نے نوچے لاکھوں شاخوں پر مرجھائے کم
آہ یہ ظالم تلخ حقیقت جتنے بھی سفینے غرق ہوئے
اکثر اپنی موج میں ڈوبے طوفاں سے ٹکرائے کم
راہ روی کا سب کو دعویٰ سب کو غرورِ عشق و وفا
راہِ وفا پر چلنے والے ہم نے لیکن پائے کم
دھیمی دھیمی چال سے ہم کو راہ گذر طے کرنی ہے
ناز تھا جن کو تیز روی پر منزل تک وہ آئے کم
مجھ سے شکایت دنیا بھر کو شدتِ غم میں رونے کی
لیکن مجھ کو اس کا رونا آنکھ میں آنسو آئے کم
صرف یہی ہے ایک طریقہ دنیا میں خوش رہنے کا
دستِ تمنا کھینچے زیادہ دامنِ دل پھیلائے کم
صبر و سکوں کی دنیا لوٹے حسن دکھا کر جلووں کو
عشق مگر خود شب بھر تڑپے اوروں کو تڑ پائے کم

عشق ادب کا نام ہے کیفیؔ یہ بھی ادب میں شامل ہے
جس کی محبت دل میں بسی ہو اس کی گلی میں جا ئے کم


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام