کرنے دو اگر قتال جہاں تلوار کی باتیں کرتے ہیں

غزل| شکیلؔ بدایونی انتخاب| بزم سخن

کرنے دو اگر قتال جہاں تلوار کی باتیں کرتے ہیں
ارزاں نہیں ہوتا ان کا لہو جو پیار کی باتیں کرتے ہیں
یہ عیش و طرب کے متوالے بیکار کی باتیں کرتے ہیں
پائل کے غموں کا علم نہیں جھنکار کی باتیں کرتے ہیں
نا حق ہے ہوس کے بندوں کو نظارۂ فطرت کا دعویٰ
آنکھوں میں نہیں ہے بیتابی دیدار کی باتیں کرتے ہیں
غم میں بھی رہا احساسِ طرب دیکھو تو ہماری نادانی
ویرانے میں ساری عمر کٹی گلزار کی باتیں کرتے ہیں
بے نقد عمل جنت کی طلب کیا شے ہیں جنابِ واعظ بھی
مٹھی میں نہیں ہیں دام و درم بازار کی باتیں کرتے ہیں
کہتے ہیں انہیں کو دشمنِ دل ہے نام انہیں کا ناصح بھی
وہ لوگ جو رہ کر ساحل پر منجدھار کی باتیں کرتے ہیں
پہنچے ہیں جو اپنی منزل پر ان کو تو نہیں کچھ ناز سفر
چلنے کا جنہیں مقدور نہیں رفتار کی باتیں کرتے ہیں
یہ اہلِ قلم یہ اہلِ ہنر دیکھو تو شکیلؔ ان سب کے جگر
فاقوں سے ہیں دل مرجھائے ہوئے دلدار کی باتیں کرتے ہیں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام