نہ ملتا غم تو بربادی کے افسانے کہاں جاتے

غزل| شکیلؔ بدایونی انتخاب| بزم سخن

نہ ملتا غم تو بربادی کے افسانے کہاں جاتے
اگر دنیا چمن ہوتی تو ویرانے کہاں جاتے
چلو اچھا ہوا اپنوں میں کوئی غیر تو نکلا
اگر ہوتے سبھی اپنے تو بیگانے کہاں جاتے
دعائیں دو محبت ہم نے مِٹ کر تم کو سکھلائی
نہ جلتی شمع محفل میں تو پروانے کہاں جاتے
تمہیں نے غم کی دولت دی بڑا احسان فرمایا
زمانے بھر کے آگے ہاتھ پھیلانے کہاں جاتے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام