پھر رہے ہیں خود نمائی کو وہ بے پردہ کئے

غزل| حفیظؔ میرٹھی انتخاب| بزم سخن

پھر رہے ہیں خود نمائی کو وہ بے پردہ کئے
اس ہوس نے کیسے کیسے خوبرو رسوا کئے
ہم ضرورت اور انا کی کشمکش دیکھا کئے
بھیک ٹھکرایا کئے دامن بھی پھیلایا کئے
میں نے تو محرومیوں سے حوصلے پیدا کئے
جو خزانے تم نے پائے تھے وہ آخر کیا کئے؟
دیکھنے دیتے نہیں کچھ سوچنے دیتے نہیں
وہ جو بیٹھے ہیں نگاہ و فکر پر قبضہ کئے
بزدلوں میں ڈھونڈھتے ہو کیوں حمیت کا جلال
مدتیں گزریں انہیں اس آگ کو ٹھنڈا کئے
یہ نہ سننا یہ نہ پڑھنا یہ نہ بن جانا کہیں
شوق کے دروازے ان پابندیوں نے وا کئے
وار کو ان کے کبھی خاطر میں لایا ہی نہیں
کتنے دشمن میں نے اس تدبیر سے پسپا کئے
چاند کا کردار اپنایا ہے ہم نے دوستو
داغ اپنے پاس رکھے روشنی بانٹا کئے

رشک مجھ کو بے ضمیروں پر نہیں آیا حفیظؔ
لاکھ میرے حال پر وہ طنز فرمایا کئے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام