کتنے خورشید بیک وقت نکل آئے ہیں

غزل| احمد ندیمؔ قاسمی انتخاب| بزم سخن

کتنے خورشید بیک وقت نکل آئے ہیں
ہر طرف اپنے ہی پیکر کے گھنے سائے ہیں
ذہن پر تنگ ہوا جب بھی اندھیرے کا حصار
چند یادوں کے دریچے ہیں جو کام آئے ہیں
کون کہتا ہے محبت ہے فقط جی کا زیاں
ہم تو اک دل کے عوض حشر اٹھا لائے ہیں
کتنے پل کے لئے وہ زینتِ آغوش رہے
کتنے برسوں کے مگر زخم نکھر آئے ہیں
گونج گونج اٹھتی ہے آواز شکستِ دل کی
جب بھی تارہ کوئی ٹوٹا ہے وہ یاد آئے ہیں
داستانِ غمِ دنیا ہو کہ افسانۂ دل
وہی قصے ہیں جو ہر دور نے دہرائے ہیں
سینۂ ارض میں بیدار ہے احساسِ جمال
جب سے فن کار ستاروں سے اتر آئے ہیں
اے سحر آج ہمیں راکھ سمجھ کر نہ اڑا
ہم نے جل جل کے ترے راستے چمکائے ہیں



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام