کیا خبر کب گر پڑے یہ آسماں گردش میں ہے

غزل| عزیز نبیلؔ انتخاب| بزم سخن

کیا خبر کب گر پڑے یہ آسماں گردش میں ہے
بے خبر ہیں رہنے والے اور مکاں گردش میں ہے
مجھ میں اک محفل جمی ہے جس میں تو ہے محوِ رقص
اور اک خواہش ہمارے درمیاں گردش میں ہے
چلتے چلتے رک کے یہ دیکھا مسافر نے نبیلؔ
راستے سب چل رہے ہیں ہر نشاں گردش میں ہے
بھر لو اپنی خشک آنکھوں میں بکھرتی سرد راکھ
جل چکے ہیں خواب سارے بس دھواں گردش میں ہے
دور جا نکلا ہوں لیکن جسم و جاں میں آج بھی
ہر گھڑی کوئی صدائے رائیگاں گردش میں ہے
گردشوں میں آ گئے ہیں آپ کے تارے تو کیا
مجھ سے پوچھیں میری پوری کہکشاں گردش میں ہے

جانے موجوں سے ہوا نے کیا کہا ہو گا نبیلؔ
خوف کے عالم میں بحرِ بیکراں گردش میں ہے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام