ہر سکوں کی تہ میں سو آتش فشاں رکھتا ہوں میں

غزل| حفیظؔ میرٹھی انتخاب| بزم سخن

ہر سکوں کی تہ میں سو آتش فشاں رکھتا ہوں میں
ضبط کا اک رخ نمایاں اک نہاں رکھتا ہوں میں
اے پرستاران نغمہ! چھوڑ کر تارِ رباب
آج کچھ دکھتی رگوں پر انگلیاں رکھتا ہوں میں
ہائے رے نیرنگیاں ہوں تو چراغ اب بھی مگر
روشنی رکھتا تھا پہلے اب دھواں رکھتا ہوں میں
آج تک گزری اجل کی آرزو میں زندگی
زندگی سے آج بھی دلچسپیاں رکھتا ہوں میں
مجھ سے کب ہوتی بھلا پابندیٔ رسمِ وجود
ان کی دلداری کی خاطر جسم و جاں رکھتا ہوں میں
ہیچ ہیں میری نظر میں آشیان و گلستاں
آدمی ہوں عزمِ تعمیرِ جہاں رکھتا ہوں میں

اب بھی وہ اپنا سمجھ کر مجھ کو اپنا لیں حفیظؔ
کون جانے ورنہ پھر یہ سر کہاں رکھتا ہوں میں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام