اجازت دے کہ اپنی داستانِ غم بیاں کر لیں

غزل| سیمابؔ اکبر آبادی انتخاب| بزم سخن

اجازت دے کہ اپنی داستانِ غم بیاں کر لیں
ترے احساس اور اپنی زباں کا امتحاں کر لیں
حیاتِ جاوداں بھی عشق میں برباد کر لیں گے
متاعِ ہستیٔ فانی تو پہلے رائیگاں کر لیں
یہ سازش کر رہے ہیں چند تنکے آشیانے کے
کہ بجلی کو کسی صورت اسیرِ آشیاں کر لیں
شبِ غم اے تصور ان کو مجبورِ تبسم کر
مرتب اس اجالے میں ہم اپنی داستاں کر لیں

ٹھکانہ ہو کہاں سیمابؔ پھر ناز آفرینی کا
اگر ہم اپنے دل کو بے نیازِ دو جہاں کر لیں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام