میں تنہا آب و رنگِ بزمِ امکاں ہو نہیں سکتا

غزل| سیمابؔ اکبر آبادی انتخاب| بزم سخن

میں تنہا آب و رنگِ بزمِ امکاں ہو نہیں سکتا
یہ دل واپس اگر تو اس میں مہماں ہو نہیں سکتا
نہ گھبرا بھید اگر اس کا نمایاں ہو نہیں سکتا
ارے یہ بھی تو عرفاں ہے کہ عرفاں ہو نہیں سکتا
یہاں ہر چیز میں بھر دی گئی ہیں قوتیں کل کی
وہ ذرہ ہی نہیں ہے جو بیاباں ہو نہیں سکتا
معاذ اللہ کمالِ علمِ ہستی کی یہ غایت ہے
کہ انساں واقفِ انجامِ انساں ہونے نہیں سکتا
مجھے حیراں نہ کر ہاں میری صورت سے عیاں ہو جا
میں آئینہ تو بن سکتا ہوں حیراں ہو نہیں سکتا
نہیں ایک لفظ ایسا دفترِ کونین میں کوئی
جو میری داستانِ دل کا عنواں ہو نہیں سکتا
الٹ دے دل کو بھی جب دل کے پردے سب الٹ جائیں
اسے بھی کر نمایاں جو نمایاں ہو نہیں سکتا
شکستہ عالمِ گل ہے تو ہوگی بارشِ گل بھی
وہ ہو مایوس جو خاکِ گلستاں ہو نہیں سکتا
وہاں لائی ہے حرصِ آدمیت منفعل کرنے
جہاں صدیوں میں پیدا ایک انساں ہو نہیں سکتا
امیدیں کچھ محبت کی ہیں کچھ ہیں حسن کے وعدے
ابھی شیرازۂ عالم پریشاں ہو نہیں سکتا
محبت کی بلند انجامیوں کا کیا ٹھکانہ ہے
فرشتہ بھی شریکِ دردِ انساں ہو نہیں سکتا
نمودِ گل سے خاکِ گل تک اک دنیا بدلتی ہے
شمارِ انقلاباتِ گلستاں ہو نہیں سکتا
مذاقِ ضبط و قیدِ جبر سے مجبور ہوں اتنا
کہ با وصفِ پریشانی پریشاں ہو نہیں سکتا
سنا اے چپکے چپکے دل کے پردے کھینچنے والے
تری حدِّ خودی تک وہ نمایاں ہو نہیں سکتا
خدا اور ناخدا مل کر ڈبو دے تو یہ ممکن ہے
مری وجہِ تباہی صرف طوفاں ہو نہیں سکتا
دعا جائز خدا برحق مگر مانگوں تو کیا مانگوں
سمجھتا ہوں کہ میں دنیا بداماں ہو نہیں سکتا

جوانی بھی گئی سیمابؔ فصلِ گلفشانی بھی
میں اب تا دیر محفل میں غزل خواں ہو نہیں سکتا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام