اس پار کا ہو کے بھی میں اس پار گیا ہوں

غزل| اسحٰقؔ وردگ انتخاب| بزم سخن

اس پار کا ہو کے بھی میں اس پار گیا ہوں
اک اسم کی برکت سے کئی بار گیا ہوں
خیرات میں دے آیا ہوں جیتی ہوئی بازی
دنیا یہ سمجھتی ہے کہ میں ہار گیا ہوں
تھامے ہوئے اک روشنی کے ہاتھ کو ہر شب
پانی پہ قدم رکھ کے میں اس پار گیا ہوں
دروازے کو اوقات میں لانے کے لئے میں
دیوار کے اندر سے کئی بار گیا ہوں
کیا میرے لئے ایک بھی کردار نہیں تھا
کیوں اپنی کہانی سے میں بے کار گیا ہوں
مشکل ہے تجھے آگ کے دریا سے بچا لوں
اے شہرِ پشاور میں تجھے ہار گیا ہوں

خوابوں نے جو اک کھیل بنایا تھا مرے دوست
اس کھیل میں تعبیر سے میں ہار گیا ہوں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام