کسی کا رنج دیکھوں یہ نہیں ہوگا مرے دل سے

غزل| ثاقبؔ لکھنوی انتخاب| بزم سخن

کسی کا رنج دیکھوں یہ نہیں ہوگا مرے دل سے
نظر صیاد کی جھپکے تو کچھ کہہ دوں عنادل سے
چل ائے ہمدم! ذرا سازِ طرب کی چھیڑ بھی سن لیں
اگر دل بیٹھ جائے گا تو اُٹھ جائیں گے محفل سے
امید و نا امیدی کا بہم ہونا وہی جانے
کہ جس نے کشتیوں کو ڈوبتے دیکھا ہے ساحل سے
نہ سمجھا معنیٔ گور و کفن سمجھا تو یہ سمجھا
تھکا تھا میں لپٹ کر سو رہا دامانِ منزل سے
تڑپنا ہے شبِ غم یوں کہ میں کچھ کہہ نہیں سکتا
بتا دے نامرادی کون سی باتیں کروں دل سے
اُدھر میں سر بکف پہنچا عدالت گاہِ محشر میں
لہو کی بوند اِدھر آنے لگی دامانِ قاتل سے
دعائیں دیں مرے بعد آنے والے میری وحشت کو
بہت کانٹے نکل آئے مرے ہم راہ منزل سے
مری آنکھیں لہو روتی رہیں تو اس کی پرسش کیا
یہ پوچھو خون کیوں برسا کیا ابروئے قاتل سے

غموں کے آسرے پر ہجر میں تھی زندگی ثاقبؔ
خلش بڑھتی جو یہ کانٹے نکلتے دامنِ دل سے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام