مآلِ گردشِ دوراں وہ کیا سمجھے وہ کیا جانے

غزل| شکیلؔ بدایونی انتخاب| بزم سخن

مآلِ گردشِ دوراں وہ کیا سمجھے وہ کیا جانے
سنے ہوں عمر بھر جس نے گل و بلبل کے افسانے
دکھائیں بندگیٔ عشق کا عالم جو دیوانے
حرم میں حشر برپا ہو لرز جائیں صنم خانے
مری کوتاہ فہمی میری گمنامی کا باعث ہے
جو میں دنیا کو پہچانوں تو دنیا مجھ کو پہچانے
رہِ عشقِ وفا میں جو طلب کی وہ بھی اک منزل
جہاں سے بے نیازانہ گزر جاتے ہیں دیوانے
ہوا جاتا ہے کم ذوقِ وفا دورِ ترقی میں
کہ اب جلتے نہیں بے ہوش ہو جاتے ہیں پروانے
محبت آرزو ، سعیٔ مسلسل ، ذوقِ محرومی
متاعِ زندگی ہیں بس یہی دو چار افسانے



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام