غمِ عاشقی سے کہہ دو رہِ عام تک نہ پہنچے

غزل| شکیلؔ بدایونی انتخاب| بزم سخن

غمِ عاشقی سے کہہ دو رہِ عام تک نہ پہنچے
مجھے خوف ہے یہ تہمت ترے نام تک نہ پہنچے
میں نظر سے پی رہا تھا تو یہ دل نے بد دعا دی
ترا ہاتھ زندگی بھر کبھی جام تک نہ پہنچے
وہ نوائے مضمحل کیا نہ ہو جس میں دل کی دھڑکن
وہ صدائے اہل دل کیا جو عوام تک نہ پہنچے
مرے طائرِ نفس کو نہیں باغباں سے رنجش
ملے گھر میں آب و دانہ تو یہ دام تک نہ پہنچے
نئی صبح پر نظر ہے مگر آہ یہ بھی ڈر ہے
یہ سحر بھی رفتہ رفتہ کہیں شام تک نہ پہنچے
یہ ادائے بے نیازی تجھے بے وفا مبارک
مگر ایسی بے رخی کیا کہ سلام تک نہ پہنچے
جو نقابِ رخ اٹھا دی تو یہ قید بھی لگا دی
اٹھے ہر نگاہ لیکن کوئی بام تک نہ پہنچے
اُنہیں اپنے دل کی خبریں مرے دل سے مل رہی ہیں
میں جو اُن سے روٹھ جاؤں تو پیام تک نہ پہنچے

وہی اک خموش نغمہ ہے شکیلؔ جانِ ہستی
جو زبان پر نہ آئے جو کلام تک نہ پہنچے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام