فزوں اتنا تو ذوقِ جستجوئے یار ہو جائے

غزل| شکیلؔ بدایونی انتخاب| بزم سخن

فزوں اتنا تو ذوقِ جستجوئے یار ہو جائے
نگاہیں ڈھونڈتی رہ جائیں اور دیدار ہو جائے
سنا ہے آ رہے ہیں خود پیغامِ سکوں بن کر
زمانہ رخ بدلنے کے لئے تیّار ہو جائے
وہ تجدیدِ محبت کے لئے بے تاب ہیں اے دل!
مزہ جب ہے تری جانب سے اب انکار ہو جائے
محبت کی وہ منزل بھی عجب نازک سی منزل ہے
جہاں اندازۂ لطف و ستم دشوار ہو جائے
بس اب آ جا کہ آنکھوں میں ہے خوابِ مرگِ تنہائی
ترے آنے سے شاید زندگی بیدار ہو جائے
شکیلؔ اس کے سوا کیا مدّعا تخلیقِ ہستی کا
محبت زندگی سے بر سرِ پیکار ہو جائے



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام