یہ کوئی دل تو نہیں ہے کہ ٹھہر جائے گا

غزل| مشفقؔ خواجہ انتخاب| بزم سخن

یہ کوئی دل تو نہیں ہے کہ ٹھہر جائے گا
وقت اک خوابِ رواں ہے سو گزر جائے گا
ہر گزرتے ہوئے لمحے سے یہی خوف رہا
حسرتوں سے مرے دامن کو یہ بھر جائے گا
دل شفق رنگ ہوا ڈوبتے سورج کی طرح
رات آئے گی تو ہر خواب بکھر جائے گا
شدتِ غم سے ملا زیست کو مفہوم نیا
ہم سمجھتے تھے کہ دل جینے سے بھر جائے گا
چند لمحوں کی رفاقت ہی غنیمت ہے کہ پھر
چند لمحوں میں یہ شیرازہ بکھر جائے گا
اپنی یادوں کو سمیٹیں گے بچھڑنے والے
کسے معلوم ہے پھر کون کدھر جائے گا

یادیں رہ جائیں گی اور یادیں بھی ایسی جن کا
زہر آنکھوں سے رگ و پے میں اتر جائے گا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام