میں دہشت گرد تھا مرنے پہ بیٹا بول سکتا ہے

غزل| منورؔ رانا انتخاب| بزم سخن

میں دہشت گرد تھا مرنے پہ بیٹا بول سکتا ہے
حکومت کے اشارے پر تو مردہ بول سکتا ہے
حکومت کی توجہ چاہتی ہے یہ جلی بستی
عدالت پوچھنا چاہے تو ملبہ بول سکتا ہے
کئی چہرے ابھی تک منہ زبانی یاد ہیں اس کو
کہیں تم پوچھ مت لینا یہ گونگا بول سکتا ہے
یہاں پر نفرتوں نے کیسے کیسے گل کھلائے ہیں
لٹی عصمت بتا دے گی دوپٹہ بول سکتا ہے
عدالت میں گواہی کے لئے لاشیں نہیں آتیں
وہ آنکھیں بجھ چکی ہیں پھر بھی چشمہ بول سکتا ہے
سیاست ان دنوں انسان کے خوں سے نہاتی ہے
گواہی کی ضرورت ہو تو دریا بول سکتا ہے
بہت سی کرسیاں اس ملک میں لاشوں پہ رکھی ہیں
یہ وہ سچ ہےجسے جھوٹے سے جھوٹا بول سکتا ہے
سیاست کی کسوٹی پر پرکھیے مت وفا داری
کسی دن انتقاماً میرا غصہ بول سکتا ہے



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام