نقش گزرے ہوئے لمحوں کے ہیں دل پر کیا کیا

غزل| مشفقؔ خواجہ انتخاب| بزم سخن

نقش گزرے ہوئے لمحوں کے ہیں دل پر کیا کیا
مڑ کے دیکھوں تو نظر آتے ہیں منظر کیا کیا
کتنے چہروں پہ رہے عکس مری حیرت کے
مہرباں مجھ پہ ہوئے آئینہ پیکر کیا کیا
وقت کٹتا رہا مے خانے کی راتوں کی طرح
رہے گردش میں یہ دن رات کے ساغر کیا کیا
چشمِ خوباں کے اشاروں پہ تھا جینا مرنا
روز بنتے تھے بگڑتے تھے مقدر کیا کیا
پاؤں اٹھتے تھے اسی منزلِ وحشت کی طرف
راہ تکتے تھے جہاں راہ کے پتھر کیا کیا
رہ گزر دل کی نہ پل بھر کو بھی سنسان ہوئی
قافلے غم کے گزرتے رہے اکثر کیا کیا
آذرانہ تھے مری وحشتِ دل کے سب رنگ
شام سے صبح تلک ڈھلتے تھے پیکر کیا کیا

اور اب حال ہے یہ خود سے جو ملتا ہوں کبھی
کھول دیتا ہوں شکایات کے دفتر کیا کیا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام