یہ سرابِ جسم و جاں ہی تو اٹھا لے جائے گی

غزل| مظہرؔ امام انتخاب| بزم سخن

یہ سرابِ جسم و جاں ہی تو اٹھا لے جائے گی
زندگی مجھ سے خفا ہوگی تو کیا لے جائے گی
چشم و ابرو کے اشارے بے اثر ہوجائیں گے
سادگی ہونٹوں سے حرفِ مدعا لے جائے گی
بھول جائیں گے تجھے اک روز تیرے غم گسار
وقت کی گردش ترا غم بھی اڑا لے جائے گی
کیا پتہ تھا ایک دن تصویر بن جائیں گے ہم
خامشی چپکے سے آئے گی صدا لے جائے گی

آج بھی جلتے ہیں آنکھوں میں تصور کے چراغ
تم تو کہتے تھے کہ سب اندھی ہوا لے جائے گی


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام