مشعل تھے جو بحرِ ظلمت میں وہ ماہ و اختر ٹوٹ گئے

غزل| معین احسن جذبیؔ انتخاب| بزم سخن

مشعل تھے جو بحرِ ظلمت میں وہ ماہ و اختر ٹوٹ گئے
اور لطف یہ ہے ائے طوفانو! کشتی کے بھی لنگر ٹوٹ گئے
اک یاس بھرے دل پر نہ ہوئی تاثیر تمہاری نظروں کی
اک موم کے بے حس ٹکڑے پر یہ نازک خنجر ٹوٹ گئے
کیا ماتم ان امیدوں کا جو آتے ہی دل میں خاک ہوئیں
کیا روئے فلک ان تاروں پر دم بھر جو چمک کر ٹوٹ گئے
یا اشکوں کا رونا تھا مجھے یا اکثر روتا رہتا ہوں
یا ایک بھی گوہر پاس نہ تھا یا لاکھوں گوہر ٹوٹ گئے
میری ہی نظر کی مستی سے سب شیشہ و ساغر رقصاں تھے
میری ہی نظر کی گرمی سے سب شیشہ و ساغر ٹوٹ گئے
یہ عرش محبت ہے میرا ائے طائر سدرہ ہوش میں آ
اس لاحاصل سی کوشش میں تخئیل کے شہپر ٹوٹ گئے

تو اور غمِ الفت جذبیؔ مجھ کو تو یقیں آئے نہ کبھی
جس قلب پہ ٹوٹے ہوں پتھر اس قلب میں نشتر ٹوٹ گئے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام