سامان میرا عرشِ بریں پر پڑا رہا

غزل| شجاعؔ خاور انتخاب| بزم سخن

سامان میرا عرشِ بریں پر پڑا رہا
میں بد دماغ اور کہیں پر پڑا رہا
مایوسیوں نے گھیر لیا سارا آسماں
رات آرزو کا چاند زمین پر پڑا رہا
اس کو خدائیوں کی فضا مل گئی مگر
سجدہ کا داغ میری جبیں پر پڑا رہا
کیا بات تھی کہ ملتے رہے دوسروں کو تاج
پھر بھی ہما کا سایہ ہمیں پر پڑا رہا
خانہ بدوشیوں کا ستایا ہوا تھا وہ
دو گز زمیں ملی تو وہیں پر پڑا رہا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام