مہرباں رات تو دے جاتی ہے خواب ایک سے ایک

غزل| شجاعؔ خاور انتخاب| بزم سخن

مہرباں رات تو دے جاتی ہے خواب ایک سے ایک
دن وہ ظالم ہے کہ ڈھاتا ہے عذاب ایک سے ایک
میری خاموشی سے قائم ہے سوالوں کا بھرم
بولوں تو مجھ کو بھی آتا ہے جواب ایک سے ایک
چھین لی وصل کے دانوں نے فضا فرقت کی
ورنہ پرواز میں رہتے تھے عقاب ایک سے ایک
خوب جاہل ہوں کہ پڑھتا ہوں فقط چہروں کو
گو کتب خانے میں رکھتا ہوں کتاب ایک سے ایک
ہم نے ہستی سے ہی کھولا ہے طلسمِ ہستی
اس حکایت میں میاں بڑھ کے ہے باب ایک سے ایک
سانس لیتے ہیں حقیقت کی عمل داری میں
خواب ہم دیکھتے ہیں پھر بھی جناب ایک سے ایک
آج کل تو خس و خاشاک کے بھی لالے ہیں
ورنہ کیا دیکھے نہیں ہم نے گلاب ایک سے ایک
چھوڑو یہ بات کرو اور کوئی بات شجاعؔ
دیکھ رکھا ہے یہاں عالی جناب ایک سے ایک



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام